بدھ، 17 مئی، 2023

مسلکِ اعلیٰ حضرت کی تعریف اور اس پر اعتراضات کے جوابات

اعلی حضرت مسلک اعلی حضرت کی تعریف اور اس پر اعتراضات کے جوابات اعلیٰ حضرت ماہ رجب مسلک اعلی حضرت کی تعریف اور اس پر اعتراضات کے جوابات مسلک اعلی حضرت کی تعریف اور اس پر اعتراضات کے جوابات مضمون شیئر کریں سوال کیا فرماتے ہیں علمائے دین مندرجہ ذیل مسائل میں. مسلک اعلی حضرت (1) معیار سنت کسے کہتے.؟ (2).مسلک اعلیٰ حضرت کسے کہتے ہیں؟. (3).کیا جو مسلک اعلیٰ حضرت سے اختلاف کریں وہ سنی نہیں.؟ (4).جب سیدی اعلیٰ حضرت اور ان کے ماننے والے حنفی ہیں مقلد امام اعظم ہیں تو بجائے مسلک اعلیٰ حضرت کے مسلک امام اعظم کیوں نہیں کہا جائے؟**(5) ڈاکٹر بہاء الدین محمد الشافعی کیرالا کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کیونکہ کچھ دنوں پہلے واٹس ایپ پر ان کے متعلق شیر مہاراشٹر مفتی علاؤ الدین صاحب رضوی کا ایک بیان دیکھا تھا کہ انہوں نے حسام الحرمین پر تصدیق فرمائی ہے کیا یہ تصدیق مستند ہے.؟ سلیم الدین ثنائی کوئلی سیتامڑھی بہار مسلک اعلی حضرت پر مکمل تفصیلی بحث الجواب اول معیار سنیت کسے کہتے ہیں ؟ مسلک اعلیٰ حضرت پر چلنے والے کو سنی کہا جاتا ہے حضور شارح بخاری فقیہ الہند مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ *سنی اس زمانے میں وہ لوگ ہیں جو مجدد اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کی تصنیفات کے مطابق عقیدہ اور عمل رکھتے ہیں ۔جو عہد رسالت سے لےکر آج تک صحابہ و ائمہ مجتہدین اور سلف کے مطابق ہے ۔ (فتاویٰ شارح بخاری جلد سوم ص 157) اور اسی میں دوسری جگہ میں ہے کہ *اعلیٰ حضرت قدس سرہ اس صدی کے مجدد ہوئے ہیں کہ علماء عرب و عجم نے ان کی مدح و ستائش کے خطبے پڑھے اور آج بھی اکابر علماء اعلیٰ حضرت قدس سرہ کی مدح کو معیار سنیت قرار دیتے ہیں اور ذم کو بد مذہبیت ۔ اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے مذہب اہل سنت کی وہ تائید و نصرت فرمائی کہ اہل سنت کو بدمذہب بریلوی اور رضائی کہتے ہیں ان کے ماننے والے یقینا حق پر ہیں اور انہیں گمراہ کہنے والے ضرور جھوٹے یا گمراہ ۔ (السابق المرجوع ص 452) دیوبندی کے یہاں تقیہ بہت بڑا ثواب کا کام ہے وہ کچھ بھی کہ سکتا ہے ۔ان کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی صاحب بارہ سال تک کانپور میں تقیہ کرکے سنی بنے رہے ۔میلاد ، قیام ، نیاز و فاتحہ سب کرتے رہے اور اندر اندر دیوبندیت پھیلاتے رہے ۔مسلمان سنیں ! مجد اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے اپنی کتابوں میں مذہب حق : الاسلام : اور مذہب اہل سنت و جماعت کو اپنی کتابوں میں شرح و بسط کے ساتھ لکھا ۔اس پر دلائل و براہین قائم کیے ہیں ۔بدمذہبوں کا رد لکھا ہے اور سب باتیں اسلاف کے عقائد کے مطابق ہیں ۔نیز حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے آج تک دنیا کے تمام اہل سنت و جماعت جس پر قائم ہیں ۔اعلیٰ حضرت قدس سرہ کا عقیدہ ایک بھی ایسا نہیں جو مذہب اہل سنت کے خلاف ہو ۔ ( فتاوی شارح بخاری جلد سوم ص 458) مسلک اعلی حضرت اسی لئے اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ۔میرا دین و مذہب جو دین اسلام اور مذہب اہل سنت ہے جو میری کتابوں میں مذکور ہے اس پر قائم رہنا ۔ (وصایا شریف اعلیٰ حضرت) آج کے دور میں مسلک اعلی حضرت کو سنیت کا معیار کہا جاتا ہے. حضرت سیدنا امام اعظم قدس سرہ العزیز سے پوچھا گیا کہ اہل سنت کی علامت کیا ہے.؟ تو فرمایا : تفضیل الشیخین و حب الختنین والمسح علی الخفین.یعنی حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم کو تمام صحابہ سے افضل ماننا اور حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضی آللہ تعالیٰ عنہما سے محبت کرنا اور موزوں پر مسح کرنا ۔وجہ یہ ہوئی کہ خوارج حضرت علی رضی آللہ تعالیٰ عنہ پر سب و شتم کرتے تھے اور روافض خلافائے ثلثہ پر ۔اور موزوں پر مسح کر ناجائز کہتے تھے اس لئے اس دور میں مذکورہ بالا چیزیں اہل سنت کی علامت قرار پائیں ۔ماضی قریب میں کلمہ پڑھتے ہوئے جب وہابیوں ۔دیوبندیوں ۔نے اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخین کیں ۔نیچروں نے ضروریات دین کا انکار کیا ۔قادیانیوں نے نبوت کا دعوع کیا ۔چکڑالیوں نے احادیث کا رد کیا وغیرہ وغیرہ ۔تو حضور مجدداعظم اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز نے سن سب کا شدومد کے ساتھ رد کیا اور تمام علمائے اہل سنت نے اعلی حضرت عظیم البرکت کو اپنا امام و پیشوا مانا ۔ان کی تصانیف اور فتاوی سے اتفاق کیا اس لئے اعلی حضرت کی ذات اس دور میں حق و باطل کے درمیان امتیاز بن گئی کہ مکہ معظمہ کے شیخ المحدثین علامہ محمد جزائری نے فرمایا : اذا جاء رجل من الھند نسئلہ عن الشیخ احمد رضا خان فان مدحہ علمنا انہ من اھل السنۃ وان ذمہ علمنا انہ من اھل البدعۃ ھذا ھو معیار الحق عندنا. یعنی جب ہندوستان سے کوئی شخص آتا ہے تو ہم اس سے شیخ احمد رضا خان کے بارے میں پوچھتے ہیں اگر وہ ان کی تعریف کرتا ہے تو ہم جانتے ہیں کہ یہ سنی ہے اور اگر وہ ان کی برائی بیان کرتا ہے تو ہم جانتے ہیں کہ یہ سنی ہے اور اگر وہ ان کی برائی بیان کرتا ہے تو ہم جان لیتے ہیں کہ وہ بدمذہب ہے ۔ہمارے پاس یہی کسوٹی ہے چوں کہ ہندوستان کے تمام علمائے اہل سنت اعلی حضرت کے ساتھ متفق ہیں اس لئے مسلک اعلیٰ حضرت کا مطلب ہوا ہندوستان کے تمام اہل سنت کا مسلک ۔اسی وجہ سے مسلک اعلیٰ حضرت سنیت کا معیار ہے اور یہی اس فقیر محمد ثناءاللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار کا موقف ہے ۔ الجواب دوم ۔مسلک اعلیٰ حضرت کسے کہتے ہیں؟ مسلک اعلیٰ حضرت سے مراد وہ مذہب حق ہے جو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے الی یومنا ھذا. متوارث چلا آرہا ہے۔ جس کی تنقیح ، تائید ماضی قریب میں مجدد اعظم اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے کی ہے ۔ مسلک اعلیٰ وہی مسلک اور مذہب ہے جو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر دنیا میں مبعوث ہوئے اور انہیں عقائد و اعمال کا نام ہے جو تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا تھا ۔جسے صحابہ کرام سے تابعین نے کیا تھا تابعین سے تبع تابعین نے کیا ۔اور قرنا بعد قرن اسلاف سے منتقل ہوتا آرہا ہے ۔ (فتاوی شارح بخاری جلد سوم ص 375) الجواب سوم بر مسلک اعلی حضرت مسلک اعلیٰ حضرت اسلام اور اہل سنت و جماعت اور چاروں اماموں کے مذہب کے سوا اور کوئی چیز نہیں ۔مجدد اعظم اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے اس مذہب مہذب اسلام اور اہل سنت و جماعت کو جو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے آج تک متوارث چلا آرہا ہے ۔اپنی تحریر و تقریر سے واضح کیا ، اسے پھیلایا ، اس کی تائید و حمایت میں دلائل قاہرہ قائم فرمایا ، جس کی نظیر ماضی قریب میں نہیں ۔ مسلک اعلیٰ حضرت مسالک ائمہ اربعہ بھی ہے ۔مسلک غوث اعظم بھی ہے ۔مسلک مجدد الف ثانی بھی ہے۔ اس لئے موجودہ دور کے بدمذہبوں سے اپنے آپ کو امتیاز کرنے کے لئے یہ کہنا کہ میں مسلک اعلیٰ حضرت پر ہوں ۔ضروری و لازم ہے ۔اس پر اعتراض یا تو جہالت ہے یا حسد اور عناد ۔ ہاں دنیا کے وہ علماۓ اہل سنت جو خود کو مسلک اہل سنت و جماعت پر بتاتے ہیں لیکن مسلک اعلیٰ حضرت نہ لکھتے ہیں اور نہ کہتے ہیں چونکہ انہیں مسلک اعلیٰ حضرت کے استعمال کی افادیت کا علم نہیں وہ علما مسلک اہل سنت و جماعت ہی کہنا پسند کرتے ہیں تو ان علما تک ہمیں مسلک اعلیٰ حضرت کی ترکیب کی افادیت بتانے کی ضرورت ہے نا کہ ہم انہیں مسلک اعلیٰ حضرت کا مخالف کہنا شروع کردیں اس عمل سے مسلک حق مسلک اعلیٰ حضرت کا ہی نقصان ہوگا ۔ ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ جو مسلک اہل سنت ہے دراصل وہی مسلک اعلیٰ حضرت ہے ۔ مختصراً یہ کہ ہمارے علما نے یہ لکھا ہے کہ اہل سنت و جماعت کو موجودہ دور کے بدمذہبوں سے ممتاز کرنے کے لئے سوائے مسلک اعلیٰ حضرت کے اور کوئی لفظ نہیں ۔ (فتاوی شارح بخاری جلد سوم ص 387) الجواب چہارم : جب سیدی اعلیٰ حضرت اور ان کے ماننے والے سنی حنفی ہیں مقلد امام اعظم ہیں تو بجائے مسلک اعلی حضرت کے مسلک امام اعظم کیوں نہیں کہا جائے ؟ اس لفظ کے رواج دینے کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب اسلام میں فرقہ باطلہ روافض ، خوارج ، معتزلی پیدا ہوئے تو مذہب حقہ کے امتیاز کے لئے اہل سنت و جماعت . لفظ شائع و ذائع ہوا ۔لیکن ماضی قریب میں کچھ فرقے ایسے بھی پیدا ہوئے جو گمراہ اور بددین اور اسلام سے خارج ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو سنی اور اہل سنت کہتے رہے جیسے وہابی ، دیوبندی ، مودودی ، صلح کلی وغیرہ تو اپنے آپ کو صرف سنی اور اہل سنت کہنے سے ان بدمذہبوں سے امتیاز نہیں ہو پارہا تھا اسی لئے بدمذہبوں سے امتیاز کے لئے جس ترکیب کا استعمال کیا گیاوہ مسلک اعلیٰ حضرت ہے ۔سوائے مسلک اعلیٰ حضرت کے کوئی لفظ نہیں جس سے اس وقت ہندوستان میں پائے جانے والے بدمذہبوں سے پورا امتیاز ہوسکے ۔یہی ایک لفظ ایسا ہے جس سے امتیاز حاصل ہوتا ہے ۔اسی سے امتیاز کے لئے اس کا نام مسلک اعلیٰ حضرت رکھا گیا ۔ (فتاوی شارح بخاری جلد سوم ص 375) اس زمانے میں دیوبندی اکثر مودودی بہت سے نیچری حتیٰ کہ قادیانی بھی اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں ۔یعنی حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مسلک کا پابند بتاکر دھوکہ دینے کک کوشش کرتے ہیں اس لئے حنفی یا مسلک امام اعظم کہنے سے ان بدمذہبوں اور اہل سنت کے مابین امتیاز نہ ہوسکے گا ۔ان تمام گمراہ فرقوں سے امتیاز لفظ مسلک اعلیٰ حضرت ہی سے ہوتا ہے ۔اس لئے اہل سنت اپنے آپ کو مسلک اعلی حضرت کے ماننے والے کہتے ہیں ۔جیسا کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے عہد پاک میں رافضی ، ناصبی ، خارجی قدری وغیرہ گمراہ فرقے پیدا ہوچکے تھے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے ، ان سے امتیاز کے لئے اہل سنت نے مذہب امام اعظم ۔مسلک امام اعظم کا نعرہ دیا ۔اسی طرح اس زمانے میں بدمذہبوں سے امتیاز کے لئے مسلک اعلیٰ کہا جاتا ہے ۔ ( فتاوی شارح بخاری جلد سوم ص 377) اس قول کی تائید اس سے بھی ہورہی ہے کہ حضرت امام یوسف رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ دینی النبی محمد خیر الورع ثم اعتقادی بمذہب النعمان ۔ (فتاوی بحرالعلوم جلد چہارم ص 413 بحوالہ درمختار جلد اول ص 26) علامہ شامی فرماتے ہیں ۔وصنفھا محمد الشیبان حرر فیھا مذہب النعمان ( فتاوی بحرالعلوم جلد چہارم ص 413 بحوالہ درمختار جلد اول ص 35) آج بھی جن فرقے کو ہم گمراہ وبدمذہب یامرتد و کافر کہتے ہیں وہ سب اپنے آپ کو سنی و حنفی کہتے ہیں لھذا جو مسلک اعلیٰ حضرت پرچلے گا مانے گا قائم رہے گا وہ اپنے آپ کو سنی یا حنفی کہلائے گا ورنہ امتیاز نہیں رہ پائے گا حسام الحرمین الشریفین کی تصدیقات حضور شارح بخاری فقیہ الہند مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ الحمد للّہ ! حسام الحرمین ایسی کتاب ہے جس کے مضامین قرآن وحدیث کے مطابق بلکہ انہیں سے اخذ کردہ ہیں اس لئے ہم اہل سنت اس کو مانتے ہیں۔اور لوگوں سے منواتے ہیں ۔اگر حسام الحرمین کا کوئی مضمون قرآن و حدیث کے خلاف ہے تو مہربانی کر کے بتائیں ۔ایک مسلمان کا کہنا ہے کہ اللہ عزوجل کو ایک مانو ۔اسلام کو حق مانو ۔رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو رسول مانو ۔قرآن کو خدائی کتاب مانو ۔تو کیا آپ کہیں گے کہ تم نے غلط کہا ماننا تو صرف قرآن کو چاہئے ۔تمہاری بات کیوں مانیں ؟کیوں نہیں کہیں گے اس وجہ سے نا کہ اس نے جو کچھ کہا قرآن مجید ہی کی بات اپنے الفاظ میں کہا ۔یہی حسام الحرمین کا ہے کہ اس میں جن بدمذہبوں کو کافر کہا گیا ۔شان الوہیت میں گستاخی اور شان رسالت میں بے ادبی کرنے کی بنا پر کہا گیا اور یہ قرآن و حدیث کا حکم ہے کہ جو بھی اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کرے وہ کافر ہے ۔پھر اس کے ماننے پر کیا کلام۔ سنئے! حسام الحرمین کے بارے میں آج تک کسی سنی عالم نے یہ نہیں کہا کہ اس کے حرف بہ حرف کو ماننا عین ایمان ہے جو اس کے حرف بہ حرف کو نہ مانے وہ کافر ہے ۔ہاں اتنا ضرور کہا جاتا ہے کہ حسام الحرمین میں جن جن گستاخوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ وہ کافر ہیں انہیں کافر ماننا لازم ہے ۔ (فتویٰ شارح بخاری جلد سوم ص 457) جواب پنجم ۔ڈاکٹر بہاء الدین محمد الشافعی کیرالا کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ میں نہ کیرالہ گیا ہوں اور نہ میری ڈاکٹر شہاب الدین شافعی صاحب سے ملاقات ہے اس لئے میں جواب دینے سے قاصر ہوں کہ کسی کو بے تحقیق بدمذہب کہنا صحیح نہیں ہے ۔اس کی سخت ممانعت آئی ہوئی ہے ہاں کسی مسلمان کو بلا ثبوت فاسق ۔بدمذہب یا کافر کہنا کیسا ہے.؟ ناجائز اور سخت بات ہے مفتی شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہر کلمہ کو اصل یہ ہے کہ وہ مسلمان ہے جب تک کہ یہ دلیل سے ثابت نہ ہو کہ اس سے کوئی کلمہ کفر صادر ہوا ہے ۔( فتاوی شارح بخاری جلد سوم ص 68) جب کوئی اپنے آپ کو سنی کہتا ہے اور سنیوں کی طرح تمام عقائد و اعمال ہیں تو اس کو سنی ہی کہا جائے گا شارح بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سنی اس زمانہ میں وہ لوگ ہیں جو مجدد اعظم اعلی حضرت حضرت امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز کی تصنیفات کے مطابق عقیدہ اور عمل رکھتے ہیں جو عہد رسالت سے لے کر آج تک صحابہ ۔ائمہ مجتہدین اور سلف و خلف کے مطابق ہے ( فتاوی شارح بخاری جلد سوم ص 157) اور جو اصول کے خلاف ہے وہ اس زمانے میں سنی نہیں ہے کسی مسلمان کو بلا ثبوت کافر کہا. اور کسی مسلمان کو بلا وجہ شرعی گم راہ بدعتی کہے وہ خود گم راہ ہے ۔حدیث میں ہے فقد باء باحدھما. جس نے کسی کو کافر یا فاسق کہا اور وہ حقیقت میں کافر یا فاسق نہیں تو کہنے والا خود کافر یا فاسق ہے ۔ ۔کسی کے اندر خلاف اہل سنت و جماعت نہ ہو کسی صحیح العقیدہ سنی مسلمان کو خارج از اسلام ماننا بہت سخت ہے حدیث شریف میں ہے کہ ۔ ایما امرنی قال لاخیہ کافر فقد باءبھا احدھما ان کان کلما قال والارجعت علیہ یعنی جو کسی مسلمان کو کافر کہے تو ان لوگوں میں سے ایک پر بلا ضرور پڑے گی ۔اگر جو کہا وہ حقیقی میں کافر تھا جب تو خیر ورنہ یہ کلمہ اسی کہنے والے پر پڑے گا ( مسلم شریف ۔ج اول ص 56) حدیث شریف میں ہے کہ من قال لاخیہ یا کافر فقد باء بھا احدھما.,,.یعنی جس نے اپنے بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر لوٹا جس کو کہا اگر وہ کافر ہے تو ٹھیک ہے ورنہ کہنے والا کافر ۔ درمختار میں ہے کہ ۔عزر الشاتم بیا کافر وھل یکفر ان اعتقد المسلم کافرا نعم یعنی جو کسی مسلمان کو یا کافر کہے ۔اس کو سزا دی جائے گی ۔وہ کافر ہوگا یا نہیں ۔اگر اس نے مسلمان کو کافر اعتقاد کرکے کافر کہا تو وہ کافر ہوگیا ۔( درمختار ۔483) لہذا بلا ثبوت شرعی کے کسی کو کافر نہیں کہا جائے گا کافر تو کہنا بڑی بات ہے بلکہ کسی مسلمان کی طرف کسی گناہ کی نسبت بلا ثبوت خود گناہ ہے ۔احیاء العلوم شریف میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لا یجوز نسبۃ الکبیرۃ الی مسلم من غیر دلیل یعنی کسی مسلمان کی طرف بلا دلیل گناہ کبیرہ کی نسبت کرنا جائز نہیں (احیاء العلوم بحوالہ شرح فقہ اکبر ص 86) خواہ مخواہ کسی پر بدگمانی جائز نہیں حدیث شریف میں ہے کہ ۔ایاکم والظن فان الظن اکذب یعنی بدگمانی سے بچو ۔بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے ۔ ۔ہاں اگر کسی کی تحریر یا تقریر سے یہ ثابت ہوجائے کہ وہ سنی نہیں ہے یعنی وجہ کفر آفتاب سے زیادہ روشن نہ ہو جائے اور حکم اسلام کے لئے اصلا کوئی ضعیف سا ضعیف محمل بھی باقی نہ رہے تو پھر حکم بدل جائے گا آخری بات : خانقاہ ثنائیہ کے تمام خلفاء معتمد ہیں اور خصوصاً خانقاہ کی تمام ذمہ داریاں شیر مہاراشٹراقاضی اعظم مہا راشٹرا مفسر قرآن مفتی محمد علاؤ الدین قادری رضوی ثنائی صاحب کے ذمہ ہیں ۔ مجھ تک یہ بات پہنچی کہ ان کے سامنے کیرلا کے ایک جید شافعی عالم دین ڈاکٹر بہاء الدین محمد الشافعی الفیضی نے حسام الحرمین کی حرف بہ حرف تصدیق کردی ہیں بلکہ اس طرح کے باطل عقائد پر خواہ وہ کوئی بھی ہوں ، جن کا ذکر امام اہل سنت نے کی ہیں وہ سب کے سب اس حکم میں داخل ہیں ، خارج از اسلام ہیں ، اس صریح تصدیق کے باوجود اگر کسی صاحب کو اختلاج ہے تو انہیں شافی علاج کی ضرورت ہے ، شرعاً یہ روا نہیں کہ جماعت کے فلاں عالم یا محدث بہت بڑے ذی علم ہیں اس لئے ان کے پاس اگر تصدیق لے آتے ہیں تو ہم مانیں گے یہ محض نفسانی ضد ہے ۔ حضرت شیرمہاراشٹرا ہمارے خلفا میں اول خلیفہ ہیں ، ناشر مسلک اعلیٰ حضرت ہیں ، کہنہ مشق مفتی ہیں ، سلسلہ قادریہ کے دیگر مشائخ سے بھی آپ کو خلافت و اجازت حاصل ہے ، ہمیشہ اتحاد مسلک و ملت کے لئے کوشاں رہتے ہیں ، مسائل کی باریکیوں پر ان کی خاص نظر رہتی ہے ، اس لئے جب ڈاکٹر بہاءالدین محمد الشافعی سے انہوں نے تصدیق حاصل کرلی ہے تو اب میں نہیں سمجھتا کہ یہاں کسی کو اعتراض کا حق حاصل ہے ہاں ! جسے شبہ ہو وہ خود بھی اپنی تشفی کے لئے ڈاکٹر موصوف سے ملیں اور حسام الحرمیں کی تصدیق پر تفصیلا گفتگو کرکے شبہات کا ازالہ کریں ! اللہ ہمیں قبول حق کی توفیق عطا فرماۓ ۔ ایک مثال سے سمجھے کہ علامہ فضل خیر ابادی رحمتہ اللہ علیہ نے اسماعیل دہلوی کو کافر کہا اور اعلی حضرت امام احمد رضا خان رضی آللہ تعالیٰ عنہ نے کافر نہیں کہا ۔اور دونوں ہمارے مقتدا ہیں ۔ کتبہ : اب یہاں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ علامہ فضل خیر ابادی نے اسماعیل دہلوی کو کافر کہا اور امام اہل سنت سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت نے کافر نہیں کہا تو ان تعارض کا کیا جواب ہوگا ؟ الجواب ۔اس کا امکان ہے کہ علامہ فضل خریر ابادی قدس سرہ العزیز کو اسماعیل دہلوی کے کلام کا وہ خفی پہلو جو کفر سے خالی ہے ذہن مبارک میں نہ آیا ہو اور بہ مصداق فوق کل ذی علم علیم. اعلی حضرت قدس سرہ کے دقیق بین ذہن میں وہ پہلو آیا اسی لئے اعلی حضرت نے کف لسانی فرمایا ۔اور ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسماعیل دہلوی نے اپنے قول سے توبہ کرلی ہے اور یہ بات مشہور ہوگئی تھی لہذا جب مفتی محمد علاؤ الدین رضوی صاحب کے سامنے تصدیق مستند ہے تو اب لعن و طعن کی ضرورت نہیں ۔ واللہ اعلم باالصواب فقیر محمد ثناءاللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار مورخہ 24 ربیع الاول شریف 1444ھ مطابق 21 اکتوبر 2022ء

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only